وہ اپنے کمرے میں اندھیرا کیے آنکھیں موندے بیٹھا ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے میں وائن کا گلاس پکڑے اسے ہلکا ہلکا ہلا رہا تھا بیچ بیچ میں سے کبھی وہ ایک دو گھونٹ وائن کے بھی بھر رہا تھا۔۔۔۔
میری بیٹی کو طلاق چاہیے اور مجھے منظور نہیں کہ میں اسے زبردستی کسی رشتے میں باندھوں جتنا جلدی ہوسکے تم اسے طلاق دے دو۔۔۔۔۔
یہ بات یاد کر کے اسے لگا تھا کہ کسی نے اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو۔۔۔۔
مجھے تم سے شدید نفرت ہے ۔۔۔۔۔
تم اپنی انا میں میرے اندر موجود اپنی ساری محبت ختم کرچکے ہو ۔۔۔۔
یہ جملہ اس نے اس کے آخری خط میں پڑھا تھا۔۔۔۔
اس نے یہ جملہ یاد کرکے جھٹکے سے اپنی سرخ انگارہ آنکھیں کھولی تھیں اور زور سے اپنے ہاتھ میں موجود گلاس زمین پر دے مارا۔۔۔۔
تمھیں مجھ سے کوئی الگ نہیں کر سکتا میں تمھیں کبھی خود سے الگ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔
وہ اپنے بالوں کو جکڑ کر وحشت ناک حالت میں چیخا تھا
غموں کی وحشت ناک حالت میں ڈوبا
وہ ہجرِ یار کا روگ لیے بیٹھا عاشق
0 Comments